پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے جرمن واچ کے جاری کردہ تازہ ترین کلائمیٹ رسک انڈیکس (سی آر آئی) میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک قرار دیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہفتے کے روز اپنے بیان میں شیری رحمان نے کہا: "پاکستانیوں کو شدید موسم سے بچنے کی تربیت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔”
سی آر آئی دنیا بھر میں شدید موسمی واقعات کی انسانی اور معاشی تباہ کاریوں کی بنیاد پر ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔ فروری میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، پاکستان 2022 میں بیلیز اور اٹلی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سب سے زیادہ کمزور ملک قرار پایا۔
شیری رحمان نے اپنی آفیشل ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر رپورٹ شیئر کرتے ہوئے کہا: "یہ ایک بہت بڑا الارم ہونا چاہیے۔”
پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری ایک تفصیلی بیان میں شیری رحمان نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان، جو عالمی کاربن اخراج میں معمولی حصہ ڈالتا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سہہ رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ شدید بارشوں، ژالہ باری اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے خطرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور صورتحال "انتہائی سنگین” ہے۔
شیری رحمان نے سوال اٹھایا: "ایسے ممالک کیوں نقصان اٹھائیں جو دنیا کے بڑے کاربن اخراج کے ذمہ دار نہیں؟ ماحولیاتی انصاف کا وقت آ گیا ہے۔”
انہوں نے زور دیا کہ اگر عالمی حدت کے خلاف حقیقی احتساب نہ ہوا تو ترقی پذیر اور غریب ممالک تباہی کا شکار ہوتے رہیں گے۔
سینیٹر نے ملک میں ماحولیاتی ایمرجنسی کے نفاذ، فوری پالیسی اصلاحات، اور پاکستان کے لیے عالمی امداد میں اضافے کا مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ پاکستان نے 2022 میں تاریخی سیلابوں کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کی ہولناک تباہ کاریوں کا سامنا کیا تھا، جس میں 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر اور 1,700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ سی آر آئی رپورٹ کے مطابق مون سون کی شدید بارشوں میں 50 فیصد اضافہ ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔
اس کے علاوہ 80 لاکھ سے زائد پاکستانی بے گھر ہوئے، 13 لاکھ سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا، اور پانی کی قلت و آلودگی کے باعث ہیضہ، ڈینگی، ملیریا اور اسہال جیسی بیماریوں نے کئی علاقوں کو اپنی
لپیٹ میں لے لیا۔