ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ جلد ہی اسرائیلی ایٹمی راز افشا کرنے جا رہا ہے، ایسے وقت میں جب یورپی ممالک اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے ووٹ کی تیاری کر رہے ہیں۔ تہران کا یہ بیان بین الاقوامی دباؤ کو ہٹانے اور اپنی نگرانی شدہ نیوکلیئر سرگرمیوں سے توجہ ہٹانے کی ایک ممکنہ حکمتِ عملی قرار دیا جا رہا ہے۔
ایرانی انٹیلی جنس کے وزیر، اسماعیل خطیب نے کہا ہے کہ ایران نے "اسرائیل کے ایٹمی پروگرام سے متعلق حساس اور اسٹریٹیجک دستاویزات” حاصل کی ہیں، جنہیں جلد منظرِ عام پر لایا جائے گا۔ ان کا اشارہ حالیہ دنوں میں ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار دو اسرائیلی شہریوں، روئی میزراہی اور الموگ اتیاس، کی طرف بھی تھا۔
یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ویانا میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے اجلاس میں ایران کی نیوکلیئر ڈیل کی خلاف ورزیوں پر تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ایران نے 400 کلوگرام یورینیم 60 فیصد تک افزودہ کر لیا ہے، جو تقریباً 10 ایٹمی بم بنانے کے لیے کافی ہے۔
فرانس، جرمنی، اور برطانیہ ایران کے خلاف تحریک لا رہے ہیں کہ اسے IAEA کی شرائط کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جائے، جو کہ اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی بحالی کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔ چونکہ 2015 کے معاہدے کے تحت روس اور چین ویٹو کا حق استعمال نہیں کر سکتے، اس لیے پابندیاں خودبخود بحال ہو سکتی ہیں۔
دوسری جانب، ایران نے بھی سخت ردعمل کی دھمکی دی ہے، جس میں یورینیم افزودگی میں مزید اضافہ اور IAEA معائنہ کاروں کی رسائی محدود کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ایرانی ایٹمی ادارے کے ترجمان بہروز کمالوندی کے مطابق، ایران نے افزودگی کی رفتار سات گنا بڑھا دی ہے۔
امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات تاحال معطل ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کے لیے 11 جون تک کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ روس نے ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ ایران عارضی طور پر افزودگی بند کرے اور اپنے یورینیم کے ذخائر ماسکو منتقل کرے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے: "ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات ایک نئی بحران کی تیاری ہے۔ اگر یورپ نے اسٹریٹجک غلطی کی، تو ذمہ داری انہی پر عائد ہو گی۔”
دنیا کی نظریں اب ایران اور مغرب کے اس ایٹمی شطرنج پر مرکوز ہیں۔