پاکستان اس وقت ایک سنگین ماحولیاتی چیلنج کے دہانے پر کھڑا ہے جہاں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، شدید سیلاب، طویل خشک سالی، اور غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیاں خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے عشروں میں ملک کی خوراک، پانی کے وسائل اور عوامی صحت کو تباہ کن خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق، پاکستان دنیا کے ان سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی آفات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ 2022 کے سیلاب میں 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے، جو اس مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ ماحولیاتی سائنسدان ملک بھر میں ایک "سبز انقلاب” کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں جس میں قابلِ تجدید توانائی، جنگلات کی بحالی، پائیدار زراعت، اور پانی کے مؤثر انتظام پر توجہ مرکوز کی جائے۔
حکومتی عہدیداروں نے "نیشنل کلائمیٹ ریزیلینس فریم ورک” کے تحت نئی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں جن میں شمسی اور ہوائی توانائی کی توسیع، شہری سبز مقامات کی تعمیر، اور ماحولیاتی لحاظ سے ہوشیار کاشتکاری شامل ہیں۔ تاہم، ماحولیاتی کارکنان کا کہنا ہے کہ صرف پالیسیاں کافی نہیں، ان پر فوری عمل درآمد، عوامی شمولیت اور بین الاقوامی تعاون بھی ناگزیر ہے۔
جوں جوں مون سون کا موسم قریب آ رہا ہے، ملک کی قیادت اور شہریوں دونوں کو پکارا جا رہا ہے کہ وہ فیصلہ کن اقدامات اٹھائیں اور ماحولیاتی خطرات کو ایک سرسبز اور مضبوط مستقبل کے مواقع میں بدلیں۔