رپورٹ از: مصباح سلیم
چاول دنیا بھر میں، خاص طور پر ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ جیسے خطوں میں، بنیادی اور روزمرہ غذا کا اہم جزو سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم، حالیہ تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ چاول کا زیادہ استعمال انسانی صحت کے لیے سنگین خطرات پیدا کر سکتا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف مانچسٹر اور یونیورسٹی آف سالفورڈ کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، چاول میں ایک زہریلا عنصر "آرسینک” بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے، جو طویل عرصے تک کھانے سے انسانی جسم میں جمع ہو کر مہلک بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ آرسینک مٹی اور پانی میں قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے، لیکن جب یہ غیر نامیاتی (inorganic) شکل میں چاول کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے تو دل کی بیماریوں، خون کی نالیوں کے مسائل اور یہاں تک کہ کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 50,000 اموات چاول میں موجود آرسینک کی زہریلی اثرات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ ان علاقوں میں زیادہ سنگین ہے جہاں چاول روزانہ کھانے کا لازمی جزو ہے۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ چاول کی مختلف اقسام میں آرسینک کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔ پاکستان اور بھارت میں عام استعمال ہونے والا باسمتی چاول دیگر اقسام کے مقابلے میں نسبتاً کم آرسینک پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ چاول کو مکمل طور پر ترک کرنے کی بجائے متوازن غذا اختیار کی جائے اور باسمتی یا کم آرسینک والے چاول کو ترجیح دی جائے۔
مزید برآں، چاول کو پکانے سے پہلے پانی میں بھگونے یا ابال کر اضافی پانی نکالنے جیسے طریقے اپنانے سے بھی آرسینک کی مقدار کم کی جا سکتی ہے۔ ماہرین یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ غذا میں فائبر سے بھرپور اشیاء، سبزیاں اور پھل شامل کیے جائیں تاکہ صحت مند طرزِ زندگی برقرار رکھا جا سکے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ چاول غذائیت سے بھرپور اور دنیا کے بڑے حصے کی بنیادی غذا ہے، لیکن اس کے استعمال میں اعتدال اور احتیاط برتنا ضروری ہے تاکہ آرسینک کے ممکنہ زہریلے اثرات سے بچا جا سکے۔